Allama Iqbal 

Gulam Moin

Updated on:

Allama Iqbal 

Allama Iqbal 

“Alam, a world of wonder, a realm of enchantment. A place where dreams unfold, where magic is woven, and where love resides. The beauty of alam, a gift from above, a treasure to cherish, a wonder to love. From the majestic mountains to the serene oceans, from the vibrant flowers to the twinkling stars, alam is a masterpiece, a work of art, a symphony of life. It’s a reminder of the beauty, the majesty, and the wonder of creation. A call to appreciate, to respect, and to preserve the delicate balance of nature. Alam, a gift, a treasure, a responsibility, a wonder to behold, and a beauty to cherish.”

یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی 

قوت کی جنگیری محبت کی فراوانی

 غلامی میں ناکاماتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں

 جو ہو ذوق یقین پہ تھا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

ہول کا یارا تو پھر شام کی طرح نرم 

رزم حق و باطل ہو تو فولاد کے مومن

عقل دلوں نکاح کا مرشد اولین ہے عشق

 عشق نہ ہو تو شر دین بت کدہ تصورات

سبق پر پھر صداقت کا عدالت کا شجاعت کا 

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے 

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

کبھی ان نوجوان مسلم تک پر بھی کیا تو نے

 وہ کیا  گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں 

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

نہیں تیرا نشیمن کسر سلطانی کے گنبد پر 

تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں”Alam, a world of wonder, a realm of enchantment. A place where dreams unfold, where magic is woven, and where love resides. The beauty of alam, a gift from above, a treasure to cherish, a wonder to love. From the majestic mountains to the serene oceans, from the vibrant flowers to the twinkling stars, alam is a masterpiece, a work of art, a symphony of life. It’s a reminder of the beauty, the majesty, and the wonder of creation. A call to appreciate, to respect, and to preserve the delicate balance of nature. Alam, a gift, a treasure, a responsibility, a wonder to behold, and a beauty to cherish.”

یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی 

قوت کی جنگیری محبت کی فراوانی

 غلامی میں ناکاماتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں

 جو ہو ذوق یقین پہ تھا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

ہول کا یارا تو پھر شام کی طرح نرم 

رزم حق و باطل ہو تو فولاد کے مومن

عقل دلوں نکاح کا مرشد اولین ہے عشق

 عشق نہ ہو تو شر دین بت کدہ تصورات

سبق پر پھر صداقت کا عدالت کا شجاعت کا 

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے 

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

کبھی ان نوجوان مسلم تک پر بھی کیا تو نے

 وہ کیا  گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں 

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

نہیں تیرا نشیمن کسر سلطانی کے گنبد پر 

تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

Leave a Comment